عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا
جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لئے ہوئے
ہوں شمعِ کشتہ، در خورِ محفل نہیں رہا
مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایانِ دست و بازوےٴ قاتل نہیں رہا
بر روئے شش جہت در آئینہ باز ہے
یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا
وا کر دیئے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا
گو میں رہا رہینِ ستمہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
دل سے ہواے کشتِ وفا مٹ گئی کہ واں
حاصل سوائے حسرتِ حاصل نہیں رہا
بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا، مگر اسد!
جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیںرہا