سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
جو بیگمات کی زد پہ ہوں، ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے برف سا ٹھنڈا مزاج ہے اس کا
زکامِ عشق کے مارے ٹھٹھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو دیوارو در لرزتے ہیں
تو آﺅ کانوں پہ ہم ہاتھ دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی زباں اِک بلیڈ جیسی ہے
یہ بات سچ ہے تو جیبیں کتر کے دیکھتے ہیں
مسکراکے نہ سہی، وہ گھور کے تو دیکھے گا
عباس اس کی گلی میں پَسر کے دیکھتے ہیں