جنوں پہ جبر خرد جب بھی ہوشیار ہوا
نظر کے ساتھ نظارہ بھی شرم سار ہوا
غم جہاں! بہت اچھا انہیں بھلا دیں گے
زہ نصیب اگر دل پہ اختیار ہوا
یہ دور دور پر آشوب ہی سہی لیکن
زمانہ پہلے بھی کب کس کو ساز گار ہوا
ملی ہیں نوع بشر سے مجھے وہ ایذائیں
کہ جب بھی غور کیا خود بھی شرمسار ہوا
کسی سے تلخئ حالات کا گلہ ہی نہیں
کہ جو ہوا وہ بہ ایمائے چشم یار ہوا
یہ زندگی کا افق بھی عجب افق ہے ضمیرؔ
کہ ہر خیال ستارہ بنا غبار ہوا