بس آنکھ ماری تھی کب میں نے تم کو چھیڑا ہے
کیوں بھاری ہاتھوں سے تم نے مجھے تھپیڑا ہے
سمجھ رہا تھا کہ چٹکی میں ہی پھنسا لوں گا
بس آنکھ مار کے اپنا تمھیں بنا لوں گا
خبر نہ تھی ترے پیروں میں اونچی سینڈل ہے
مرا خیال تھا ہلکی سی ایک چپل ہے
زبان تیز ہے تیری ہیں ہاتھ بے قابو
تماشا بن گیا پٹنے لگا ہوں میں بابو
لگا ہے زور سے تھپڑ تو ہوش آیا ہے
سڑک پہ میں نے یہ کیا آج گل کھلایا ہے
لو ہاتھ جوڑ دیے چھوڑ دو گریباں کو
کہ لالے پڑ گئے بازار میں مری جاں کو
میں توبہ کرتا ہوں اب چھیڑوں گا نہ راہوں میں
کبھی بھی جھانک کے دیکھوں گا نہ نگاہوں میں
سر بازار پڑی مار شان میری لٹی
ہے شکر جانی کہ آخر تو جان تیری چھٹی
اے دوستو ! کیا بتاؤں جو میری حالت ہے
بس اک حسینہ کو چھیڑا تھا یہ حماقت ہے
میں چھت پہ دور سے دیکھا کروں گا اب اس کو
ذرا دھیان سے چھیڑا کروں گا اب اس کو
کہ سینڈلوں سے تو دل کانپ کانپ جاتا ہے
اور اس کو دیکھے بنا چین بھی نہ آتا ہے