جو بھلا کرے بھلا ہو جو برا کرے برا ہو
نہ زیاں کبھی کسی کا یہی اپنا مدعا ہو
نہ ہو امتیاز کوئی بھی ساقی گری میں اپنے
ہے چمن کی اس سے زینت یہی اپنا مقتضا ہو
کبھی مل بھی جائے نعمت تو نہ شکر سے ہوں غافل
کبھی چھن بھی جائے نعمت نہ کبھی کوئی گلہ ہو
یہ رہے گی آزمائش نہ کوئی بری ہو اس سے
تو کبھی بھی مایوسی کا نہ تو کوئی شائبہ ہو
یہ جو زندگی ملی ہے یہ تو ہے ہی اک امانت
یہ تو بندگی میں گزرے تو اسی کا جائزہ ہو
ذرا دیکھو یہ پرندے جو فضاؤں میں ہیں اڑتے
انہیں کون ہے جو تھاما تو اسی کی بس ثنا ہو
یہ ہے اثر کی تمنا ملے در کی خاک ان کی
نہ کلاہ کی ہے چاہت نہ تو تاج ہی عطا ہو