جو روئیں درد دل سے تلملا کر
Poet: Jurat Qalandar Bakhsh By: raheel, khi
جو روئیں درد دل سے تلملا کر
تو وہ ہنستا ہے کیا کیا کھلکھلا کر
یہی دیکھا کہ اٹھوائے گئے بس
جو دیکھا ٹک ادھر کو آنکھ اٹھا کر
بھلا دیکھیں یہ کن آنکھوں سے کیوں جی
کسی کو دیکھنا ہم کو دکھا کر
کھڑا رہنے نہ دیں وو اب کہ جو شخص
اٹھاتے تھے مزے ہم کو بٹھا کر
گیا وو دل بھی پہلو سے کہ جس کو
کبھی روتے تھے چھاتی سے لگا کر
چلی جاتی ہے تو اے عمر رفتہ
یہ ہم کو کس مصیبت میں پھنسا کر
خط آیا واں سے ایسا جس سے اپنا
نوشتہ خوب سمجھے ہم پڑھا کر
ابھی گھر سے نہیں نکلا وہ تس پر
چلا گھر بار اک عالم لٹا کر
دیا دھڑکا اسے کچھ وصل میں ہائے
بگاڑی بات گردوں نے بنا کر
محبت ان دنو جو گھٹ گئی واں
تو کچھ پاتے نہیں اس پاس جا کر
مگر ہم شوق کے غلبے سے ہر بار
خجل ہوتے ہیں ہاتھ اپنا بڑھا کر
نہیں منہ سے نکلتی اس کے کچھ بات
کسی نے کیا کہا جرأتؔ سے آ کر
تو وہ ہنستا ہے کیا کیا کھلکھلا کر
یہی دیکھا کہ اٹھوائے گئے بس
جو دیکھا ٹک ادھر کو آنکھ اٹھا کر
بھلا دیکھیں یہ کن آنکھوں سے کیوں جی
کسی کو دیکھنا ہم کو دکھا کر
کھڑا رہنے نہ دیں وو اب کہ جو شخص
اٹھاتے تھے مزے ہم کو بٹھا کر
گیا وو دل بھی پہلو سے کہ جس کو
کبھی روتے تھے چھاتی سے لگا کر
چلی جاتی ہے تو اے عمر رفتہ
یہ ہم کو کس مصیبت میں پھنسا کر
خط آیا واں سے ایسا جس سے اپنا
نوشتہ خوب سمجھے ہم پڑھا کر
ابھی گھر سے نہیں نکلا وہ تس پر
چلا گھر بار اک عالم لٹا کر
دیا دھڑکا اسے کچھ وصل میں ہائے
بگاڑی بات گردوں نے بنا کر
محبت ان دنو جو گھٹ گئی واں
تو کچھ پاتے نہیں اس پاس جا کر
مگر ہم شوق کے غلبے سے ہر بار
خجل ہوتے ہیں ہاتھ اپنا بڑھا کر
نہیں منہ سے نکلتی اس کے کچھ بات
کسی نے کیا کہا جرأتؔ سے آ کر
قسمت میں تو ہے عذاب سہنا
دھیان اس کے میں ہم کو سر بہ زانو
آنکھیں کیے بند بیٹھے رہنا
منہ چاہئے چاہنے کو یوں جی
کیا تم نے کہا یہ پھر تو کہنا
اللہ رے سادگی کا عالم
درکار نہیں کچھ اس کو گہنہ
کر بند نہ اشک چشم تر کو
بہتر ناسور کا ہے بہنا
قائم رہے کیا عمارت دل
بنیاد میں تو پڑا ہے ڈھنا
شب گھر جو رہا مرے وہ مہماں
تھا صبح یہ کس ادا سے کہنا
طاقت نہ رہی بدن میں ہے ہے
قربان کیا تھا یاں کا رہنا
دل نے بھی دیا نہ ساتھ جرأتؔ
کیا دوش کسی کو دیجے لہنا
جس کے گھر کو یہ سمجھتے تھے کہ ہے گھر اپنا
کوچۂ دہر میں غافل نہ ہو پابند نشست
رہ گزر میں کوئی کرتا نہیں بستر اپنا
غم زدہ اٹھ گئے دنیا ہی سے ہم آخر آہ
زانوئے غم سے ولیکن نہ اٹھا سر اپنا
دیکھیں کیا لہجۂ ہستی کو کہ جوں آب رواں
یاں ٹھہرنا نظر آتا نہیں دم بھر اپنا
گر ملوں میں کف افسوس تو ہنستا ہے وہ شوخ
ہاتھ میں ہاتھ کسی شخص کے دے کر اپنا
وائے قسمت کہ رہے لوگ بھی اس پاس نہ وہ
ذکر لاتے تھے کسی ڈھب سے جو اکثر اپنا
ذبح کرنا تھا تو پھر کیوں نہ مری گردن پر
زور سے پھیر دیا آپ نے خنجر اپنا
نیم بسمل ہی چلے چھوڑ کے تم کیوں پیارے
زور یہ تم نے دکھایا ہمیں جوہر اپنا
کیا کریں دل جو کہے میں ہو تو ہم اے جرأتؔ
نہ کہیں جائیں کہ ہے سب سے بھلا گھر اپنا






