جھمکے بیگم کے جو کھو گئے تھے
ڈھونڈنا ہم پہ فرض ہو گئے تھے
کپ بورڈز کنگھالے‘ ٹرنک ٹٹولے
اسی دھن میں کئی تالے کھولے
ہم نے فلش دیکھا‘ لوگوں سے پوچھا
یہاں بھی تاڑا‘ وہاں بھی جھانکا
بیگم تو رہیں پڑی روتی
ہم بنتےرہے ‘ خصم سے کھوجی
بیگم کی آہیں جاتی تھیں نکلتی
ہمسائیاں آتی گئیں سنبھلتی سنبھلتی
دیکھا اک نے کانوں میں ان کے
پہن تو رکھے ہیں دونوں جھمکے
بتایا ان کو تو چونکیں‘ بولیں“ بہنے“
“ ہائے! میں سمجھی ہیں ٹاپس پہنے“