جی چاہتا ہے فلک پہ جاؤں
سورج کو غروب سے بچاؤں
بس میرا چلے جو گردشوں پر
دن کو بھی نہ چاند کو بجھاؤں
میں چھوڑ کے سیدھے راستوں کو
بھٹکی ہوئی نیکیاں کماؤں
امکان پہ اس قدر یقیں ہے
صحراؤں میں بیج ڈال آؤں
میں شب کے مسافروں کی خاطر
مشعل نہ ملے تو گھر جلاؤں
اشعار ہیں میرے استعارے
آؤ تمہیں آئنہ دکھاؤں
یوں بٹ کے بکھر کے رہ گیا ہوں
ہر شخص میں اپنا عکس پاؤں
آواز جو دوں کسی کے در پر
اندر سے بھی خود نکل کے آؤں
اے چارہ گران عصر حاضر
فولاد کا دل کہاں سے لاؤں
ہر رات دعا کروں سحر کی
ہر صبح نیا فریب کھاؤں
ہر جبر پہ صبر کر رہا ہوں
اس طرح کہیں اجڑ نہ جاؤں
رونا بھی تو طرز گفتگو ہے
آنکھیں جو رکیں تو لب ہلاؤں
خود کو تو ندیمؔ آزمایا
اب مر کے خدا کو آزماؤں