ہر طرف سے ہیں سختیاں
غالب حال اکثر خراب رہتا ہے
جھڑکیاں افسروں کی دفتر میں
گھر میں بیگم عذاب رہتا ہے
سن کے حاکم کے منہ سے گالی گلوچ
منہ سے کھلتے گلاب کہتا ہے
آفریں اسکی حوصلہ مندی
ملحوظ اداب رہتا ہے
چاہے خادم ہو کتنا غصے میں
پھر بھی حاضر جناب کہتا ہے
اتنی ٹینشن میں ضیاء صدیقی
کب قائم باقی شباب رہتا ہے
گھر سے بیگم تو ہو گئیں رخصت
دیکھئے ایک صاحب رہتا ہے