حالت حال میں کیا رو کے سناؤں تجھ کو
Poet: Mubashir Saeed By: mahrukh, khi
حالت حال میں کیا رو کے سناؤں تجھ کو
تو نظر آئے تو پلکوں پہ بٹھاؤں تجھ کو
خود کو اس ہوش میں مدہوش بنانے کے لیے
آیت حسن پڑھوں دیکھتا جاؤں تجھ کو
تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا
تو ابھی رقص کروں ہو کے دکھاؤں تجھ کو
کر لیا ایک محبت پہ گزارا میں نے
چاہتا تھا کہ میں پورا بھی تو آؤں تجھ کو
اب مرا عشق دھمالوں سے کہیں آگے ہے
اب ضروری ہے کہ میں وجد میں لاؤں تجھ کو
کیوں کسی اور کی آنکھوں کا قصیدہ لکھوں
کیوں کسی اور کی مدحت سے جلاؤں تجھ کو
عین ممکن ہے ترے عشق میں ضم ہو جاؤں
اور پھر دھیان کی جنت میں نہ لاؤں تجھ کو
اس نے اک بار مجھے پیار سے بولا تھا سعیدؔ
میرا دل ہے کبھی سینے سے لگاؤں تجھ کو
More Mubashir Saeed Poetry
حالت حال میں کیا رو کے سناؤں تجھ کو حالت حال میں کیا رو کے سناؤں تجھ کو
تو نظر آئے تو پلکوں پہ بٹھاؤں تجھ کو
خود کو اس ہوش میں مدہوش بنانے کے لیے
آیت حسن پڑھوں دیکھتا جاؤں تجھ کو
تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا
تو ابھی رقص کروں ہو کے دکھاؤں تجھ کو
کر لیا ایک محبت پہ گزارا میں نے
چاہتا تھا کہ میں پورا بھی تو آؤں تجھ کو
اب مرا عشق دھمالوں سے کہیں آگے ہے
اب ضروری ہے کہ میں وجد میں لاؤں تجھ کو
کیوں کسی اور کی آنکھوں کا قصیدہ لکھوں
کیوں کسی اور کی مدحت سے جلاؤں تجھ کو
عین ممکن ہے ترے عشق میں ضم ہو جاؤں
اور پھر دھیان کی جنت میں نہ لاؤں تجھ کو
اس نے اک بار مجھے پیار سے بولا تھا سعیدؔ
میرا دل ہے کبھی سینے سے لگاؤں تجھ کو
تو نظر آئے تو پلکوں پہ بٹھاؤں تجھ کو
خود کو اس ہوش میں مدہوش بنانے کے لیے
آیت حسن پڑھوں دیکھتا جاؤں تجھ کو
تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا
تو ابھی رقص کروں ہو کے دکھاؤں تجھ کو
کر لیا ایک محبت پہ گزارا میں نے
چاہتا تھا کہ میں پورا بھی تو آؤں تجھ کو
اب مرا عشق دھمالوں سے کہیں آگے ہے
اب ضروری ہے کہ میں وجد میں لاؤں تجھ کو
کیوں کسی اور کی آنکھوں کا قصیدہ لکھوں
کیوں کسی اور کی مدحت سے جلاؤں تجھ کو
عین ممکن ہے ترے عشق میں ضم ہو جاؤں
اور پھر دھیان کی جنت میں نہ لاؤں تجھ کو
اس نے اک بار مجھے پیار سے بولا تھا سعیدؔ
میرا دل ہے کبھی سینے سے لگاؤں تجھ کو
mahrukh
خواب زدہ ویرانوں تک خواب زدہ ویرانوں تک
پہنچی نیند ٹھکانوں تک
آوازوں کے دریا میں
غرق ہوئے ہم شانوں تک
باغ اثاثہ ہے اپنا
وہ بھی زرد زمانوں تک
بنچ پہ پھیلی خاموشی
پہنچی پیڑ کے کانوں تک
عشق عبادت کرتے لوگ
جاگیں روز اذانوں تک
کرنیں ملنے آتی ہیں
گھر کے روشن دانوں تک
زرد اداسی چھائی ہے
کھیتوں سے کھلیانوں تک
پہنچی نیند ٹھکانوں تک
آوازوں کے دریا میں
غرق ہوئے ہم شانوں تک
باغ اثاثہ ہے اپنا
وہ بھی زرد زمانوں تک
بنچ پہ پھیلی خاموشی
پہنچی پیڑ کے کانوں تک
عشق عبادت کرتے لوگ
جاگیں روز اذانوں تک
کرنیں ملنے آتی ہیں
گھر کے روشن دانوں تک
زرد اداسی چھائی ہے
کھیتوں سے کھلیانوں تک
uzair






