۔ حالت وصل میں، قلب و نظر کو دیکھتے ہیں
کبھی مکتوب کو، کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
۔ وہ سمائیں دل میں ہمارے، ان کی قدرت ہے
کبھی ہم انہیں، کبھی ان کے گھر کو دیکھتے ہیں
۔ بلبل گل کے لئے فناہے تو، پروانہ شمع پر فدا
مالی کبھی جڑ،کبھی شاخ و ثمر کو دیکھتے ہیں
۔ کہاں ہے وجود انسان تولیدی مادہ سے قبل
کبھی کائنات کوہم، کبھی دہر کو دیکھتے ہیں
حجر شجر،حیواں انساں کو یاں خدا بناے بیٹھے ہیں
شور و شغب ذمانہ میں منصف دلیل معتبر کو دیکھتے ہیں
فرصت نہیں اہل ذوق کو رنگ و بو ذمانہ سے
طالبان حق ہر گھڑی مالک صبا و سحر کو دیکھتے ہیں
قال کو حال بنانے کا سفر گرچہ نہیں سہل
جان بلب مریض فقط چارہ گر کو دیکھتے ہیں
سیکھا بہت کچھ، پر نہ سیکھا، اظہار محبت کا قرینہ
روتے میں تبسم، خوشی میں کبھی دیدہ تر کو دیکھتے ہیں