وسعتِ سوچ کو کردار بتانے والی
تنگیءِ لباس کو معیار بنانے والی
برہنہ سوچ تو غلطیدہ فکر ہے ان کی
پاک ہیں خود کو دوپٹے میں چھپانے والی
وہ سمجھتے ہیں کہ پابندِ روایت ہیں وہ
میں یہ کہتا ہوں کہ غافلِ حقیقت ہیں وہ
سوچِ کفار معیارِ زمانہ ہے ابھی
فکرِ اسلام کو کافر سے بچانا ہے ابھی
سوتے ذہنوں تمھیں بیداری کی ندا آئی ہے
ظلم کے سامنے حق بول اٹھانا ہے ابھی
حق جو کہتے ہیں صرف وہ ہی جیا کرتے ہیں
جامِ شہادت ایسے لوگ ہی پیا کرتے ہیں
شرم سے سر کو جھکانے پہ منظور ہے تو
لعن و لہب کی محفل میں بڑا مسرور ہے تو
فتنے سارے ہی ترے ساتھ رہا کرتے ہیں
اور کہتا ہے کہ یہ کرنے پہ مجبور ہے تو
پھر کیوں روتے ہو کہ ہے آج زوال تجھے
متقی ہوجا خدا دے گا پھر کمال تجھے
تو نے خود کو اس ہی دنیا میں ڈبا رکھا ہے
گرمیءِ جاں کیلئے عورت کو سجا رکھا ہے
ایسے اعمال ہیں پھر بھی تجھے شکوہ ہے کہ
حال مسلم کا کیوں دوجوں سے برا رکھا ہے
شرمِ مسلم کا تقاضہ ہے کہ چھوڑ دے سب
جتنے بت دل میں بسا رکھے ہیں پھوڑ دے سب