میں کراچی ہوں میرا حال نہ پوچھو
کون کتنا بنا رہا ہے مال‘ نہ پوچھو
گولیاں چل رہی ہیں‘ لاشیں گر رہی ہیں
بوری میں بند لاشوں کا حال‘ نہ پوچھو
روٹی‘ کپڑا اور مکان کا وعدہ
کس طرح ہو رہا ہے پامال‘ نہ پوچھو
ڈیوائیڈ اینڈ رول تو انگریزوں کی حکمت تھی
یہاں چل رہا ہے کون یہ چال‘ نہ پوچھو
وہ زندہ ہوتیں تو یہ کیا ممکن تھا
ملتا مجھے بھی حکمرانی کا سرتال‘ نہ پوچھو
سیاسی میدان کے بڑے بڑے سورما بھی
رہتے ہیں میری جیب میں بن کے رومال‘ نہ پوچھو
عدلیہ کے فیصلوں کا ہم احترام کرتے ہیں
عمل کرتے ہیں کہ نہیں یہ سوال‘ نہ پوچھو
یہ احترام کا شاید کوئ نیا انداز ہے
ہوتا ہے یہ کہاں کہاں استعمال‘ نہ پوچھو
عوامی نمائندہ ہوں کٹہرے میں کھڑا ہو گیا تو کیا
اس کے پس پردہ جو تھا میرا خیال‘ نہ پوچھو
شاہد بس کرو کہیں یہ تمہاری کھری باتیں
بن جائیں نہ تمہارے لئے وبال‘ نہ پوچھو