اپنے تو کریم رب پر قرباں ہر کوئی ہو
یہ جاں اسی نے دی اس کی ہی بندگی ہو
بے بندگی زندگی تو شرمندگی ہے
بس بندگی سے یہ زندگی قیمتی ہو
لو آگیا ہے حج کا موسم بڑا سہانہ
ہر ایک کی زباں پر لبیک کا ترانہ
اے حاجیوں مبارک ہو حج کی یہ سعادت
محبوب کے تو در کی اب ہوگی ہی زیارت
اپنے کریم رب سے بندوں کی دو ہے نسبت
اک ہے نیاز مندی اک عشق اور محبت
اظہار عبدیت تو بالکل نماز میں ہے
اِظْہارِ عِشْق ہوتا بِالکُلِّیَہ ہی حج سے
ہر ایک سے تعلق بس توڑ کر ہے جانا
محبوب کی گلی اور کوچوں میں تو ہے پھرنا
اس رَنْگِ عاشقانہ کا احرام ہے ہی مظہر
کرتا نہ تو بدن پر ٹوپی نہ کوئی سر پر
صورت فقیر جیسی نہ خوشبو نہ ہی زینت
ہو بھی لباس ایسا گو مجنونانہ ہیئت
سر پر ہوں بال بکھرے ہو عاشقوں کی صورت
لب پر ہو جاری نعرہ مستانہ وار حالت
دل ہو بھی جیسے کھویا گو چوٹ سی لگی ہو
محبوب کے تو در پر کیا کچھ گزر رہی ہو
چکر بھی کاٹتا ہو محبوب کے تو گھر کا
دیوار و در کو اس کے بس چومتا ہے پھرتا
کعبہ شریف کے تو پردے سے ہے چِمَٹْنا
چہرہ بھی ملتزم کو اپنا تو ہے لگانا
پھر دوڑنا صفا اور مروہ کے بیچ میں ہی
انداز مجنونانہ کا پر کیف منظر ہے بھی
کیا خوب حج کا مظہر صحرا نوردی کا تو
مکہ میں صبح کی ہو اور شب منی میں ہی ہو
عَرْفات کے بیاباں میں صبح کو پھر آنا
اور شام ہوتے ہی تو مُزدَلفَہ میں پھر جانا
اور صبح کو منی میں پھر دوپہر کو مکہ
اور شام کو منی میں پھر لوٹ کر ہے آنا
اور کنکری منی میں شیطاں کو مارنا ہے
اس عشق کے سفر کا قربانی منتہی ہے
اپنی ہی نیتوں کو خالص ہی ہے بنانا
نام و نمود سے ہی خود کو تو ہے بچانا
لو آگیا ہے حج کا موسم بڑا سہانہ
ہر ایک کی زباں پر لبیک کا ترانہ