حسیں مثل گل ھے ہر ذرہ وطن کا
سلامت رھے رنگ و بو اس چمن کا
صلہ منزل شوق کا یہ ملا ھے
تصور حسیں تصویر میں ڈھلا ھے
فنا ہو گئ تیرگی ہر سفر کی
ملی روشنی جب اس حسیں قمر کی
درخشاں رھے اپنا یہ آشیانہ
وابستہ رھے اس سے اپنا فسا نہ
ستاروں سے بلند ہو پرواز اس کی
رہےمعتبر سدا آواز اس کی
کہیں د کھ و الم کی نہ کوئی فغاں ہو
نشا ط ۔ زندگی کا یہ آشیاں ہو
خزاں کا نہ کوئی یہاں سال آئے
بہاروں کا سدا اس پہ جمال آئے
سدا جشن آزادی منا ئیں ہر سال
نہ آئے کسی راہ پہ اس کو زوال
لہو نے شہید ؤں کے روشن کیا ہے
منور مری دھرتی کا ہر دیا ہے
وطن میں رہیں اب بسیرے امن کے
محبت و امن ہو ترانے سخن کے
دلوں میں محبت ہر حال رکھنا ہے
عزائم عدو پائمال رکھنا ہے
معین ہر راہ یہ خیال رکھنا ہے
وطن ہے امانت سنبھال رکھنا ہے