کتنے نمرود و بن زیاد آئے
مثل قوم ثمود و عاد آئے
جتنے مجنوں کے نام لیواء تھے
سب ہی ناکام و نا مراد آئے
دودھ کیونکر پہاڑ سے نکلے
تیشہ لیکر جو گر فرہاد آئے
اڑ جا پنچھی کے تاک میں تیری
لے کے پھندے کئی صیاد آ ئے
وہ نکما گدھا ہی فارغ تھا
سارا ہی بوجھ اس پہ لاد آئے
مجھ سے پہلے وہ گھر سے نکلے تھے
اور واپس وہ میرے بعد آئے
اسکا گھر چھوڑنے کے بعد مجھے
بیتے لمحے بہت ہی یاد آئے
گھر کے سوکھے درخت کی جڑ میں
ڈال کر ہم بھی یوریاء کھاد آئے
فیل ہو کر بھی امتحان میں ہم
خوش و خرم و شاد باد آئے
ہم نے سب کو یہاں پہ دے ڈالی
اب ہمارے لیئے بھی داد آئے
شور ہے محفل سخن میں اشہر
آج حضرت بلال مراد آئے