حضور خاک مدینہ کا آسرا دیجئے
حضور تاج یہ سر پر میرے سجا دیجئے
نجانے کب سے ہیں بے دید نگاہیں میری
حضور ان پہ لعاب دہن لگا دیجئے
بڑی مدت سے میں نے زندگی نہیں دیکھی
حضور روضہ ء اطہر مجھے دکھا دیجئے
وہ جس سے روح بلالی فروغ پاتی ہے
مجھے بھی جینا اسی ذوق میں سکھا دیجئے
حضور آپکے قدموں پہ نگاہیں قرباں
میرا بھی سویا مقدر کبھی جگا دیجئے
پڑا ہوں کب سے تہی دامنی کے چنگل میں
حضور مجھ کو ہر اک قید سے چھڑا دیجئے
حضور آپکے ہاتھوں میں سبھی رستے ہیں
میں کھو گیا ہوں مجھے راستہ دکھا دیجئے
حضور رشک ہے مجھکو تیرے گداؤں پر
میری بھی ذات میں غنچے وہی کھلا دیجئے
حضور جنتوں کی بات برملا لیکن
مجھے مدینے کی گلیاں فقط پھرا دیجئے
ہاں چوم لینے دیں نعلین پاک کے تلوے
حضور زندگی کو معتبر بنا دیجئے