یوں بیٹھے خیال آیا خود پہ ایک کتاب لکھوں
دنیا کے ستم لکھوں یا اپنی حالت خراب لکھوں
کبھی دنیا کو چھوڑا خدا کے ہو گئے اور کبھی خدا کو
بروز حشر سوال ہو گا ابھی کیا جواب لکھوں
جو پہنچ گیا محنت کے ساتہ صرف مقام بلند پر
آگرجنون نہ ہو تو اسکو کیا کامیاب لکھوں
تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے رب جلال
اگر پھر بھی تجھ کو نہ پہچان سکوں تو خود کو کیا گلاب لکھوں
جنہوں نے آفاق کو تخسیر کرکے کر لیا حاصل کمال
سیدہ سبیقہ خود کو ہی ڈھونڈ نہ سکے اسکو کیا نایاب لکھوں