چمن تھا کوئی کہیں پر نہ آشیانا تھا
ترا وجود بھی پوشیدہ اک خزانہ تھا
بس ایک تیری حقیقت تھی، سب فسانہ تھا
ہزار پردوں کے پیچھے ترے ٹھکانا تھا
ہو نہ آگ، نہ مٹی، نہ آب و دانہ تھا
خدا ہی جانتا ہے وہ بھی کیا زمانا تھا
خدا کا منشا تھا عرفان اپنی قدرت کا
بس ایک اپنا تعارف ہی تو کرانا تھا
خدائے کون و مکاں ہے، وہ لا شریک لہ
وہ ہے ، رہے گا، ہمیشہ وہی یگانا تھا
نجات و عفو کا مظہر ہے بس تری دہلیز
سکون بخش ترا سنگ آستانا تھا
غموں کی دھوپ کڑی تھی، مگر جہاں بھی گیا
ترے کرم کا مرے سر پہ شامیانا تھا
یقیں کی آخری حد ہے یہ منزل عرفاں
خیال دوئی کو دل سے یہاں مٹانا تھا
جو بے بصر تھا اے رومی ! ہوا وہی مردود
یہ وہ مقام ہے سر کو جہاں، جھکانا تھا