میرے مالک میری رضا تو ہے
میں ہوں بندہ میرا خدا تو ہے
اور کیا اس کے ماسوا تو ہے
ابتدا تو ہے، انتہا تو ہے
منبع خلق و ارتقاء تو ہے
محور دین مصطفٰی تو ہے
میں ہوں تنہا مگر نہیں تنہا
ساتھ ہر وقت دوسرا تو ہے
جب بھی کہتا ہے کوئی نعت نبی
حرف در حرف بولتا تو ہے
حکمرانوں کا حکمراں تو ہے
رہنماؤں کا رہنما تو ہے
تیرا فیضان ہے سبھی کے لئے
کرد گار شہ و گدا تو ہے
اہل ایماں ہیں تیرے گھر کے دیے
ان دیوں کی مگر جلا تو ہے
اس سے دنیا خفا ہے تو بھی کیا
جس کسی شخص کی رضا تو ہے
ظلمت دہر کیا ڈرائے گی
ظلمت دہر میں ضیا تو ہے
تجربہ ہے غموں کے ماروں کا
سب بلاؤں کو ٹالتا تو ہے
کون ہے رب سوال جب ابھرا
دل نے فوراً یہ کہہ دیا تو ہے
باطناً تو ہی تو ہے نظروں میں
ظاہراً آنکھ سے چھپا تو ہے
جب بھی راشد ہو مبتلائے غم
درد و غم اس کے بانٹتا تو ہے