حُسنِ رسولِ پاک ہے نقصِ جہاں سے دور دور
جس کو ہو عیب کی تلاش ہو وہ یہاں سے دور دور
جس کو ملے نصیب سے ، قُربتِ کوچۂ رسول
کیوں کرنہ اس کا دل رہے عیشِ جہاں سے دور دور
نورِ رسول کے طفیل ، آدم نے پائی زندگی
ان کے ہی نور سے ہوئی ظلمت جہاں سے دور دور
گُستاخ نجدیو ! چلو دامن نبی کا تھام لو!
ورنہ رہوگے دیکھنا کل تم جناں سے دور دور
یارب ترے حبیٖب کا گلشن اُجاڑ تے ہیں یہ
مولا انھیں ذلیل کر ، کردے یہاں سے دور دور
خاکِ مدینہ میں جگہ مل جائے دفن کے لیے
رکھنا ہمارے لاشے کو ہندوستاں سے دور دور
جب سے غمِ رسول کی لذّت سے آشنا ہے دل
واللہ! میں تو ہوگیا آلامِ جاں سے دور دور
احمد رضا کے صدقے میں ، عشقِ رسول ہے فزوں
رہتا ہے دل مُشاہدؔ اب ، حُبِّ جہاں سے دور دور