حیران ہیں ہم کےیہ کیسی غزل خوانی ہے
نا ہاتھ میں رومال نا آنکھوں میں پانی ہے
اس کی نظموں کا توکوئی نا عنوان ہے
نا ہی اشعار کا کوئی مفہوم و معنی ہے
جن لوگوں کی ہر بات میں تضاد ہے یارو
وہی کہتے پھرتے ہیں ہمارا کوئی ناثانی ہے
رمضان کاایک بھی رزہ نا رکھاجس نے
پوچھتا پھرتا ہےکیا میراچہرہ نورانی ہے
ہم کس کےپاس اپنا دل امانت رکھیں
یہاں ہر کسی کےدل میں بےایمانی ہے