حیراں ہوں‘ دل کو روؤں کہ‘ پیٹوں جگر کو میں
Poet: MIRZA GHALIB By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI
حیراں ہوں‘ دل کو روؤں کہ‘ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو‘ تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
چھوڑا نہ رشک نے کہ‘ تیرے گھر کا نام لوں
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ ’’ جاؤں کدھر کو میں
جانا پڑا رقیب کے در پر‘ ہزار بار
اے کاش! جانتا نہ تیری رہگزر کو میں!
ہے کیا‘ جو کس کے باندھیے؟ میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں‘ تمھاری کمر کو میں!
لو وہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ یہ بے ننگ و نام ہے‘‘
یہ جانتا اگر‘ تو لٹاتا نہ گھر کو میں
چلتا ہوں تھوڑی دور‘ ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
خواہش کو‘ احمقوں نے‘ پرستش دیا قرار
کیا پوجتا ہوں اس بتِ بیداد گر کو میں؟
پھر بیخودی میں بھول گیا‘ راہِ کوئے یار
جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو میں
اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس‘ اہل دہر کا
سمجھا ہوں دلپذیر‘ متاعِ ہنر کو میں
غالبؔ! خدا کرے کہ‘ سوارِ سمندِ ناز
دیکھوں علی بہادرِ عالی گہر کو میں
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
آزادی نسیم مبارک کہ ہر طرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دام ہوائے گل
جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مر گیا
اے واے نالۂ لب خونیں نوائے گل
خوش حال اس حریف سیہ مست کا کہ جو
رکھتا ہو مثل سایۂ گل سر بہ پائے گل
ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باد بہار سے
مینائے بے شراب و دل بے ہوائے گل
سطوت سے تیرے جلوۂ حسن غیور کی
خوں ہے مری نگاہ میں رنگ ادائے گل
تیرے ہی جلوہ کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گل در قفائے گل
غالبؔ مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل
دیوانگاں کا چارہ فروغ بہار ہے
ہے شاخ گل میں پنجۂ خوباں بجائے گل
مژگاں تلک رسائی لخت جگر کہاں
اے وائے گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل






