خاک تدبیر ہوا کرتی ہے
ہونی تو ہوکے رہا کرتی ہے
شام ہوتے ہی مرے جسم کی دھوپ
میرے سائے میں چھپا کرتی ہے
نقش منزل کے مٹا دینے کا
کام رستوں میں ہوا کرتی ہے
کھڑکیاں کھولکےرکھتی ہوںمگر
اک گھٹن دل میں رہا کرتی ہے
فرق رشتوں میں جو آجاتاہے
گھر میں دیوار اٹھاکرتی ہے
اب ہوائیں بھی دریچوں کا حیاء
دیکھ کر حال ہنسا کرتی ہیں