خدائی فوجداروں کا اثر اچھا نہیں لگتا
خدا کی ذات سے منکر بشر اچھا نہیں لگتا
ذرا ٹھہرو سنو معصوم سی ننھی سی فریادیں
جنھیں یہ خون میں ڈوبا نگر اچھا نہیں لگتا
زمین و آسماں کے درمیاں ہیں سسکیاں کتنی
دکھوں کے رنگ میں ڈوبا قمراچھا نہیں لگتا
چمن میں اڑتی پھرتں تھیں نہ جانے تتلیاں کتنی
بنا پھولو ں کے اب تنہا گزر اچھا نہیں لگتا
اٹھائے پھر رہے ہیں ڈگریاں جو اپنے کاندھوں پہ
انھیں اب مشکلوں کا یہ سفر اچھا نہیں لگتا
خزاں آنے سے پہلے آؤ اے کلیوں کے سوداگر
بہاریں بیت جائیں تو شجر اچھا نہیں لگتا
امنگوں کی شفق پر چھا گئ ہےوقت کی زردی
کوئی بھی فیصلہ اب معتبر اچھا نہیں لگتا
نئی پرواز کا نا حوصلہ چھینو پرندوں سے
نگاہیں پھیر لو تم کو اگر اچھا نہیں لگتا