پھر سے محشر کی خبر ہے کہ خدا خیر کرے
بندہ نا دان بشر ہے کہ خدا خیر کرے
یاں تو پہلے ہی تنی چادر ظلمت تھی مگر
پھر سے آتی یہ کہر ہے کہ خدا خیر کرے
کتنی دقت سے یہاں امن ہوا تھا قائم
پھر سے دہشت کی لہر ہے کہ خدا خیر کرے
شب پرستوں نے یہاں ڈالے ہیں پھر سے ڈیرے
حق پرستو ں کا شہر ہے کہ خدا خیر کرے
پھر سے جلا دوں نے باندھا ہے نشانہ اس پر
زخمی پہلے ہی نگر ہے کہ خدا خیر کرے
پیار کے بول جو میٹھے تھے انہیں بھول گیا
پھر سے لفظوں میں زہر ہے کہ خدا خیر کرے
خوں بھری نظروں سے دیکھا تو لرز اٹھا ہوں
تیری آنکھوں میں قہر ہے کہ خدا خیر کرے
راز کی بات یہ خفیہ تھی مگر رہ نہ سکی
تیرے لہجے میں جہر ہے کہ خدا خیر کرے
کوئی سنتا ہی نہیں آج وفاء کے قصے
کتنا مشکل یہ دھر ہے کہ خدا خیر کرے
میں نے سن رکھا ہے آئیگی قیامت اس دن
آج پھر یوم شکر ہے کہ خدا خیر کرے
یوں نہ اترا یہ اجالے نہیں دائم تیرے
یہ تو مانگے کی سحر ہے کہ خدا خیر کرے
بیگناہ قتل کیے جس نے خدا کے بندے
اس کا انجام سقر ہے کہ خدا خیر کرئے
وہ لٹیرا جو کہ بدنام زمانہ اسکی
اب میرے گھر پہ نظر ہے کہ خدا خیر کرے
میں نے ہر زخم کو ہنس کر ہی سہا تھا کل تک
اب جو ٹوٹا یہ صبر ہے کہ خدا خیر کرے
کل بھی لڑتا رہا تنہا یہاں فر عونوں سے
آج بھی وہ ہی ڈگر ہے کہ خدا خیر کرے
چھوڑ جاتا ہوں تمہیں رب کی اماں میں دیکر
اب میرا ر خت سفر ہے کہ خدا خیر کرے
موت سے ڈرتا نہیں ظلم کے آگے اشہر
پھر سے اب سینہ سپر ہے کہ خدا خیر کرے