اُن کے طفیل ہم کو خدا کا یقیں ملا
دنیا انھیں سے پائی انھیں سے ہے دیں ملا
آدم کو نورِ سرورِ دیں سے ملی حیات
اور عفو کیلئے بھی وسیلہ حسیں ملا
اَوروں کا کام کرکے مسرت سمیٹ لو
اَخلاق کا انھیں سے یہ درسِ حسیں ملا
دُنیا سے جہل و کفر کی تاریکیاں مٹیں
انسان کو وہ رشتۂ درد آفریں ملا
آقا سے ہم کو درسِ مساوات کے طفیل
انسان دوستی کا اُصولِ حَسیں ملا
جس کو ہوا حضور سے ادراکِ نظم وضبط
ایوانِ خسروی میں وہ مسند نشیں ملا
ایک ایک درسے خالی پلٹ آیا اور پھر
جو کچھ ملا زمانے کو آخر وہیں ملا
اخترؔ کی ہے نظر تو حدائق کا فیض ہے
مجھ کو مُشاہدؔ آقا کا عرفاں یہیں ملا