دیکھتا ہوں بغورجب میں ٹوٹے گھروں کو
گِرے ہوئے درخت کی کمزور جڑوں کو
سسکتی ہوئی انسانیت جو دم توڑ رہی ہے
ماں اپنے ہی بچوں کا ہاتھ چھوڑ رہی ہے
سوچتا ہوں بپا محبت کی وہ صدا کہاں ہے
سوچتا ہوں یہاں ہے تو مگر خدا کہاں ہے
بہت سے چہروں سے ہنسی نوچتے درندے
پنجروں میں پر کٹے ہوئے اداس ہیں پرندے
کی تھی جو خوشی کے لیے وہ دعا کہاں ہے
سوچتا ہوں یہاں ہے تو مگر خدا کہاں ہے
دیر تک اپنے دل کو ہم تو ٹٹول رہے تھے
سوالوں کو سوال ہی جھنجھوڑ رہے تھے
دل کی دہلیز پر تھا میری جواب کھڑا ہوا
گلابوں میں مرجھایا ہوا گلاب تھا پڑا ہوا
دنیا میں ابھی نہیں کنولؔ مکمل حشر بپا ہے
یہ کم ثبوت ہے اس کا یہیں پر ہی خدا ہے