کبھی کبھی دال روٹی کھلاتی ہے ہمسائی
اپنی مست آنکھوں سےپلاتی ہے ہمسائی
اس کی سات شادیاں ناکام ہو چکی ہیں
اسی لیے مجھ سےشرماتی ہے ہمسائی
اس کا چہرہ خربوزے کی طرح کھل اٹھتاہے
جب اپنی ناگن جیسی زلفیں بکھراتی ہےہمسائی
اپنےبل ڈاگ کو باغ میں لے جانےکہ بہانے
کبھی کبھی مجھ سےملنےآ جاتی ہےہمسائی
اور کوئی اس کے حسن سےگھائل ہو یاناہو
مگر میرےدل پہ بجلیاں گراتی ہےہمسائی