کیا خبر کس چیز کی یہ جستجو سجدے میں ہے
حق پرستوں کی جو ہر دم ہاؤہو سجدے میں ہے
کس نے اس کو ہیں سکھائے بندگی کے یہ طریق
جس طرف دیکھو جہان رنگ و بو سجدے میں ہے
دست بستہ ہیں شجر تو سر جھکائے ہیں بشر
ایسے لگتا ہے جبین کاخ و کو سجدے میں ہے
اس طرح کوئی عبادت کر سکا ہے کب یہاں
اے حسین ابن علی ! جس طرح تو سجدے میں ہے
ظلم و استبداد کے آگے نہ سر کو خم کیا
تو مگر اپنے خدا کے روبرو سجدے میں ہے
سر جھکائے ہے ندامت سے یوں فوج اشقیا
تیری جرات پر کہ جیسے خود، سجدے میں ہے
آنکھوں کی دہلیز پر خم ہے اک اک موئے مژہ
آنسوؤں کے پانی سے کر کے وضو، سجدے میں ہے
لذت سجدہ گزاری پوچھئے کس سے بھلا
کون جانے کیسی کیسی گفتگو سجدے میں ہے
ایسا ذوق بندگی رومی ! کہیں دیکھا نہیں
سر ہے نیزے پر شہیدوں کا لہو سجدے میں ہے