سردیوں کا موسم ہے
دسمبر آنے والا ہے
اب کے ہم نے سوچا ہے
بارشیں دسمبر کی
بھیگتے ہی گزریں گی
سُونی بانہوں میں اپنی
بارشیں سمیٹیں گے
سینے سے لپیٹیں گے
آنسوؤں کے موتی بھی
بارشوں میں دھوئیں گے
پھر کبھی نہ روئیں گے
اب کے ہم نے سوچا ہے
سرد راتیں دسمبر کی
اُداس نہ گزاریں گے
یادگار رکھیں گے
گُنگناتی یخ بستہ اُنگلیوں کے پُوروں کو
بالوں میں پروئیں گے
غم گداز بستر میں
حسرتوں کے کمبل میں
پُرسکون سوئیں گے
اب کے ہم نے سوچا ہے
آنے والے دسمبر کی سبھی شامیں
عجب طور سے گزاریں گے
سنا ہےدسمبر کی شامیں اُداس ہوتی ہیں
ڈھلتا ہوا سورج دل ڈباتا ہے
کہ اِس موسم میں تنہائی بڑی دل گرفتہ ہوتی ہے
ابھی گزرے دسمبر میں
کچھ ایسا ہی حال اپنا تھ
مگر اِس بار کچھ نیا کرنے کو مَن ہے
اب کے ہم نے سوچا ہے
صاحب نامِ جاناں کو اب کے شام لکھیں گے
شام کی کہانی میں خود کو گُمنام لکھیں گے
اُس کو مئے پکاریں گے خود کو جام لکھیں گے
دسمبر کی حسیں شاموں میں تازہ کلام لکھیں گے
اب کے ہم نے سوچا ہے
صبح کے اُجالوں میں
ماہ دسمبر کے سورج کی آب و تاب دیکھیں گے
ڈوبتے برس کا چڑھتا آفتاب دیکھیں گے
اب کے ہم نے سوچا ہے
گُزرے پل کی یادوں کو
جھوٹے سچے وعدوں کو
سرے سے بھول جانا ہے
کسی سے کچھ گلہ شکوہ نہیں کرن
نہ کچھ اُمید رکھنی ہے
بیچ محفل سے اُٹھ جانے کی عادت چھوڑ دینی ہے
خواب خواب چہروں کو
ان کہے شعروں کو
بے محل ہی کہنا ہے
برف برف آنگن سے
حرف حرف چُننا ہے
آدھے ادھورے سپنوں کو
نئے سرے سے لکھنا ہے
اب کے ہم نے سوچا ہے
دسمبر میں دسمبر کو
نئے سال سے پہلے
الوداع بھی کہنا ہے