خدا تجھ سے ہے التجا
سہارا تو ہی ہے سدا
بکھر سے گئے ہیں یہاں
ملے ہم کو بھی آسرا
نہیں کوئی تیرے سوا
سہارا تو ہی ہے سدا
سفینہ ہے گرداب میں
بچا بن کے تو نا خدا
کرم غرق ہونے نہ دے
کنارہ بھی کشتی لگا
پلٹ دے روش بھی تو اب
سہارا تو ہی ہے سدا
مصیبت و قہر آئے گر
ہو امر کن سے فنا
ڈگر پر خطر ہے بڑی
بدل دے تو ساری فضا
پریشاں بہت بھی ہو گر
سہارا تو ہی ہے سدا
سماوی یا ارضی رہے
دفع ہو جائے سب بلا
بحر بھی تو، ساحل بھی تو
جہاں بھی چلے، تو روا
صدا نکلے ناصر کی بھی
سہارا تو ہی ہے سدا