دل توڑ کر وہ دل میں پشیماں ہوا تو کیا
Poet: Wamiq Jaunpuri By: Yousuf, khi
دل توڑ کر وہ دل میں پشیماں ہوا تو کیا
اک بے نیاز ناز پہ احساں ہوا تو کیا
اپنا علاج تنگئ دل وہ نہ کر سکے
میرا علاج تنگی داماں ہوا تو کیا
جب بال و پر ہی نذر قفس ہو کے رہ گئے
صحن چمن میں شور بہاراں ہوا تو کیا
اک عمر رکھ کے روح مری تشنۂ نشاط
اب نغمۂ حیات پرافشاں ہوا تو کیا
جب میرے واسطے درمے خانہ بند ہے
صہبا میں غرق عالم امکاں ہوا تو کیا
ٹوٹے پڑے ہیں ساز محبت کے تار تار
اب شاہد خیال غزل خواں ہوا تو کیا
آدم نے ایک خوشۂ گندم کو کیا کیا
مجرم کبھی جو بھوک سے انساں ہوا تو کیا
وامقؔ کی تیرہ بختی کا عالم وہی رہا
ظلمت کدہ میں چشمۂ حیواں ہوا تو کیا
More Wamiq Jaunpuri Poetry
رہنا تم چاہے جہاں خبروں میں آتے رہنا رہنا تم چاہے جہاں خبروں میں آتے رہنا
ہم کو احساس جدائی سے بچاتے رہنا
خود گزیدہ ہوں بڑا زہر ہے میرے اندر
اس کا تریاق ہے راتوں کو جگاتے رہنا
مدتوں بعد جو دیکھو گے تو ڈر جاؤ گے
اپنے کو آئنہ ہر روز دکھاتے رہنا
خود فریبی سے حسیں تر نہیں کوئی جذبہ
خود جو رہنا ہے تو یہ دھوکا بھی کھاتے رہنا
یہ تو معلوم ہے مرنے پہ ملے گی اجرت
کار فن کار ہے تصویر بناتے رہنا
اپنی نااہلی پہ قاتل کو نہ طیش آ جائے
اوچھے زخموں کو ذرا اس سے چھپاتے رہنا
ہارنے جیتنے سے کچھ نہیں ہوتا وامقؔ
کھیل ہر سانس پہ ہے داؤں لگاتے رہنا
ہم کو احساس جدائی سے بچاتے رہنا
خود گزیدہ ہوں بڑا زہر ہے میرے اندر
اس کا تریاق ہے راتوں کو جگاتے رہنا
مدتوں بعد جو دیکھو گے تو ڈر جاؤ گے
اپنے کو آئنہ ہر روز دکھاتے رہنا
خود فریبی سے حسیں تر نہیں کوئی جذبہ
خود جو رہنا ہے تو یہ دھوکا بھی کھاتے رہنا
یہ تو معلوم ہے مرنے پہ ملے گی اجرت
کار فن کار ہے تصویر بناتے رہنا
اپنی نااہلی پہ قاتل کو نہ طیش آ جائے
اوچھے زخموں کو ذرا اس سے چھپاتے رہنا
ہارنے جیتنے سے کچھ نہیں ہوتا وامقؔ
کھیل ہر سانس پہ ہے داؤں لگاتے رہنا
tahir
دل توڑ کر وہ دل میں پشیماں ہوا تو کیا دل توڑ کر وہ دل میں پشیماں ہوا تو کیا
اک بے نیاز ناز پہ احساں ہوا تو کیا
اپنا علاج تنگئ دل وہ نہ کر سکے
میرا علاج تنگی داماں ہوا تو کیا
جب بال و پر ہی نذر قفس ہو کے رہ گئے
صحن چمن میں شور بہاراں ہوا تو کیا
اک عمر رکھ کے روح مری تشنۂ نشاط
اب نغمۂ حیات پرافشاں ہوا تو کیا
جب میرے واسطے درمے خانہ بند ہے
صہبا میں غرق عالم امکاں ہوا تو کیا
ٹوٹے پڑے ہیں ساز محبت کے تار تار
اب شاہد خیال غزل خواں ہوا تو کیا
آدم نے ایک خوشۂ گندم کو کیا کیا
مجرم کبھی جو بھوک سے انساں ہوا تو کیا
وامقؔ کی تیرہ بختی کا عالم وہی رہا
ظلمت کدہ میں چشمۂ حیواں ہوا تو کیا
اک بے نیاز ناز پہ احساں ہوا تو کیا
اپنا علاج تنگئ دل وہ نہ کر سکے
میرا علاج تنگی داماں ہوا تو کیا
جب بال و پر ہی نذر قفس ہو کے رہ گئے
صحن چمن میں شور بہاراں ہوا تو کیا
اک عمر رکھ کے روح مری تشنۂ نشاط
اب نغمۂ حیات پرافشاں ہوا تو کیا
جب میرے واسطے درمے خانہ بند ہے
صہبا میں غرق عالم امکاں ہوا تو کیا
ٹوٹے پڑے ہیں ساز محبت کے تار تار
اب شاہد خیال غزل خواں ہوا تو کیا
آدم نے ایک خوشۂ گندم کو کیا کیا
مجرم کبھی جو بھوک سے انساں ہوا تو کیا
وامقؔ کی تیرہ بختی کا عالم وہی رہا
ظلمت کدہ میں چشمۂ حیواں ہوا تو کیا
Yousuf






