زباں جو تسبیوں سے تر رہتی ہے نجانے کیوں دعا بے اثر رہتی ہے سوچ میں نہیں لفظوں میں بسا ہے وہ ذات جانے کدھر رہتی ہے کھڑا ہوں ہاتھ باندھے آداب سے دل میں ہمیشہ کوئی فکر رہتی ہے کرعہد وفا کاپاس اب تو عرفان جانتا نہیں ہے کتنی عمر رہتی ہے