اب ترا انتظار رہتا ہے
دل مرا بے قرارہتا ہے
اک بار دیکھ لوں تجھ کو
تو آنکھوں میں خمار رہتا ہے
ترے جانے سے ہوگیا اداس
دل مرا اب اشکبار رہتا ہے
کبھی اس گلی بھی آجاؤ تم
جس میں اک دل فگار رہتا ہے
ملنے کا کہہ کر بھی نہیں آتا اکثر
نہ جانے کہاں وہ دلدار رہتاہے
یوں تو فریب بہت دیئے اس نے، دیکھئے
کب تلک کاشف اس پہ اعتبار رہتا ہے