دل مرا سوزِ نہاں سے بے مُحابا جل گیا
آتشِ خاموش کے مانند گویا جل گیا
دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اِس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا
عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار
اِس چراغاں کا، کروں کیا، کارفرما جل گیا
میں ہوں اور افسردگی کی آرزو، غالب! کہ دل
دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہلِ دنیا جل گیا