دل میں نفرت کی لگی آگ بجھا دی جائے
اب زمانہ کو محبت کی فضا دی جائے
بات لازم ہے اصولوں کی مگر اے یارو
پہلے دیوار عداوت کی گرا دی جائے
پھر جلے گھر نہ کسی کا بھی حکومت میں کوئی
بے حسی وقت کی جو بھی ہو مٹا دی جائے
کب تلک یوںہی سہو گے یہ ستم دنیا کے
اب تو آواز بغاوت کی اٹھا دی جائے
تاکہ ہر سمت ہو عابد یہ نظام الفت
شمع اک اور محبت کی جلا دی جائے