دل نے چاہا تھا جسے اسکو بھلاؤں کیسے
ٹوٹ کے بکھراہوں جو خودکو سنبھالوںکیسے
جسکے پہلو میں صدا رہنے کی تمنا کی تھی
اس سے پوچھو توسہی اسکو بھلاؤںکیسے
آنکھ بند ہوتے ہی درپن میں سمٹ آتی ہے
تیری تصویر تصور میں نہ لاؤں کیسے
ریت پر لکھا ہوا لہر بہادے بھی تو
جو ہتھیلی پہ کھدا نام مٹاؤں کیسے
خواب ہوتا تو کھرچ دیتا ذہن سے اپنے
جو حقیقت ہے اسے خواب بناؤں کیسے
گر زباں چپ بھی رہے چہرہ تو کہہ دیتا ہے
ضبط کتنا میں کروں درد چھپاؤں کیسے
کیا کروں رستہ مرا اسکی گلی سے ہی ہے
شام ہونے کو جو ہے گھر کو میں جاؤں کیسے