دل کو ان سے خدا جدا نہ کرے
بے کسی لوٹ لے خدا نہ کرے
اس میں روضہ کا سجدہ ہو کہ طواف
ہوش میں جو نہ ہو وہ کیا نہ کرے
یہ وہی ہیں کہ بخش دیتے ہیں
کون ان جرموں پہ سزا نہ کرے
سب طبیبوں نے دے دیا ہے جواب
آہ عیسیٰ اگر دوا نہ کرے
دل کہاں لے چلا حرم سے مجھے
ارے تیرا برا خدا نہ کرے
عذر امید عفو گر نہ سنیں
روسیا اور کیا بہانہ کرے
دل میں روشن ہے شمع عشق حضور
کاش ! جوشِ ہوس ہوا نہ کرے
حشر میں ہم بھی سیر دیکھیں گے
منکر آج ان سے التجا نہ کرے
ضعف مانا مگر یہ ظالم دل
ان کے رستے میں تو تھکا نہ کرے
جب تیری خو ہے سب کا جی رکھنا
وہی اچھا جو دل برا نہ کرے
دل سے اک ذوق مے کا طالب ہوں
کون کہتا ہے اتقا نہ کرے
لے رضاؔ سب چلے مدینے کو
میں نہ جاؤں ارے خدا نہ کرے