دل کو رہ رہ کے یہ اندیشے ڈرانے لگ جائیں
Poet: ریحانہ روحی By: مصدق رفیق, Karachiدل کو رہ رہ کے یہ اندیشے ڈرانے لگ جائیں
واپسی میں اسے ممکن ہے زمانے لگ جائیں
سو نہیں پائیں تو سونے کی دعائیں مانگیں
نیند آنے لگے تو خود کو جگانے لگ جائیں
اس کو ڈھونڈیں اسے اک بات بتانے کے لیے
جب وہ مل جائے تو وہ بات چھپانے لگ جائیں
ہر دسمبر اسی وحشت میں گزارا کہ کہیں
پھر سے آنکھوں میں ترے خواب نہ آنے لگ جائیں
اتنی تاخیر سے مت مل کہ ہمیں صبر آ جائے
اور پھر ہم بھی نظر تجھ سے چرانے لگ جائیں
جیت جائیں گی ہوائیں یہ خبر ہوتے ہوئے
تیز آندھی میں چراغوں کو جلانے لگ جائیں
تم مرے شہر میں آئے تو مجھے ایسا لگا
جوں تہی دامنوں کے ہاتھ خزانے لگ جائیں
More December Poetry






