دل کی کلی کِھلی تو سب کچھ ہی کِھل گیا
وہ مل گئے تو سمجھو سب کچھ ہی مل گیا
مل جائے جو رفاقت ان کی تو بس کبھی
نہ ہو کسی کی چاہت کہ کانٹا نکل گیا
نکلی دعا جو دل سے وہ عرش تک گئی
ایسا خلوص بھی تھا کہ عرش ہل گیا
مرضی بغیر ان کی پتّہ نہ ہل سکے
ان کے ہی فضل سے تو ہر قفل کٌھل گیا
دریا میں تو کسی کو مل جائے راہ بھی
لشکر سمیت کوئی دریا میں گُھل گیا
محتاج بھی ہو آتش جو نہ جلا سکے
مخلوق پر تو خالق کا حکم چل گیا
پختہ یقین نے تو طوفاں کو بھی ٹالا
پختہ یقیں نہ ہو تو ساحل بھی ٹل گیا
وہ کیا نظر کہ ذرے نجم و قمر بنے
ویسی نظر سے ہی تو عالم بدل گیا
پروانے بھی تو کیسے مٹتے ہیں شمع پر
یہ اثر کا جنوں بھی ویسا اچھل گیا