دل کے سونے صحن میں گونجی آہٹ کس کے پاؤں کی
دھوپ بھرے سناٹے میں آواز سنی ہے چھاؤں کی
اک منظر میں سارے منظر پس منظر ہو جانے ہیں
اک دریا میں مل جانی ہیں لہریں سب دریاؤں کی
دشت نوردی اور ہجرت سے اپنا گہرا رشتہ ہے
اپنی مٹی میں شامل ہے مٹی کچھ صحراؤں کی
بارش کی بوندوں سے بن میں تن میں ایک بہار آئی
گھر گھر گائے گیت گگن نے گونجیں گلیاں گاؤں کی
صبح سویرے ننگے پاؤں گھاس پہ چلنا ایسا ہے
جیسے باپ کا پہلا بوسہ قربت جیسے ماؤں کی
اک جیسا احساس لہو میں جیتا جاگتا رہتا ہے
ایک اداسی دے جاتی ہے دستک روز ہواؤں کی
سینوں اور زمینوں کا اب منظر نامہ بدلے گا
ہر سو کثرت ہو جانی ہے پھولوں اور دعاؤں کی