دنیا بھی عجب قافلۂ تشنہ لباں ہے
ہر شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے
تنہا تری محفل میں نہیں ہوں کہ مرے ساتھ
اک لذت پابندیٔ اظہار و بیاں ہے
حق بات پہ ہے زہر بھرے جام کی تعزیر
اے غیرت ایماں لب سقراط کہاں ہے
کھیتوں میں سماتی نہیں پھولی ہوئی سرسوں
باغوں میں ابھی تک وہی ہنگام خزاں ہے
احساس مرا ہجر گزیدہ ہے ازل سے
کیا مجھ کو اگر کوئی قریب رگ جاں ہے
جو دل کے سمندر سے ابھرتا ہے یقیں ہے
جو ذہن کے ساحل سے گزرتا ہے گماں ہے
پھولوں پہ گھٹاؤں کے تو سائے نہیں انورؔ
آوارۂ گلزار نشیمن کا دھواں ہے