ہم خود کو سمجھتے چالاک بہت ہیں
مگر یہ دنیا والے خطرناک بہت ہیں
میں نے کہا سات سمندر پار جانا ہے
وہ بولی لگتا ہے آپ تیراک بہت ہیں
ظاہر میں تو آٹے کا بحران ہے
مگر گوداموں کے اندر سٹاک بہت ہیں
اپنی کہانی بھی میاں مجنوں جیسی ہے
تمام عمر چھانتے رہے خاک بہت ہیں
انہیں سنو گے تو کبھی مسکرا نہ سکو گے
میری محبتوں کی داستانیں دردناک بہت ہیں
جو کسی سے حق بات کہہ نہیں سکتے اصغر
وہ خود کو سمجھتے بے باک بہت ہیں