دوست بن کربھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار میرا
سخت نا دم ہے مجھے دام میں لانے والا
صبح دم چھوڑ گیا نکہت گل کی صورت
رات کو غنچہ دل میں سمٹ آنے والا
کیا کہیں کتنےمراسم تھے ہمارے اس سے
وہ جو ایک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا
تیرے ہوتے ہوئے آجاتی تھی ساری دنیا
آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا
منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ میں
کون آئے گا یہاں کون ہے آنے والا
کیا خبرتھی جو میر ی جاں میں گھلا ہے اتنا
ہے وہی مجھ کو سردار بھی لانے والا
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا