اک شکایت ہے یہ الزام نہیں ہے میرے دوست
بےوفائی، سو تیرا کام نہیں ہے میرے دوست
رستہ شوق پہ رہبر کے قدم مل جانا
ایک آغاز ہے، انجام نہیں ہے میرے دوست
خون بہنے کے لئے ہے سو بہا دے لیکن
اتنا آسان بھی یہ کام نہیں ہے میرے دوست
حسن موجود ہے ، آنکھیں بھی ہیں موجود مگر
دل میں پھر بھی کوئی کہرام نہیں ہے میرے دوست
بس تجھے آنکھوں سے میں دور نہیں کر سکتا
میرے جذبے کا کوئی نام نہیں ہے میرے دوست
تجھ کو احساس دلانا تھا سو پتھر پھینکا
یہ کسی جنگ کا پیغام نہیں ہے میرے دوست
محضر عشق میں زخموں کی سلامی ہے صلہ
یاں کوئی تمغہ و انعام نہیں ہے میرے دوست
تشنگی ڈھونڈ رہی ہے مجھے ساحل ساحل
میرے ہاتھوں میں کوئی جام نہیں ہے میرے دوست
سج چکی قتل گہ عشق رضا اب اٹھو
وقت یہ اب پۓ آرام نہیں ہے میرے دوست