دوستی سے ڈرتا ہوں
زندگی سے ڈرتا ہوں
جس گلی میں چھوڑا ہے
اُس گلی سے ڈرتا ہوں
بندہ میں تیرا ہو کر
بندگی سے ڈرتا ہوں
اپنوں سے ڈرتا ہوں اور
اجنبی سے ڈرتا ہوں
موت کا ڈر بھی نہیں
خود کشی سے ڈرتا ہوں
باغ کا اک پھول ہوں
اور کلی سے ڈرتا ہوں
اب مرا اب میں ہوں اور
ہر کسی سے ڈرتا ہوں
رات کی تاریکی میں
روشنی سے ڈرتا ہوں
جھوٹ سے نفرت مجھے
حق کہی سے ڈرتا ہو ں
اک شجر کا خار ہوں
چنبلی سے ڈرتا ہوں
زندگی اک راز ہے
ہاں اسی سے ڈرتا ہوں