کیا دوستی کا ربط بھی باقی نہیں رہا
جو میکدے میں جام مے باقی نہیں رہا
بدلے ہوئے تیور یہ بدلہ ہوا انداز
کیوں آج وہ طرز کہن باقی نہیں رہا
دل گنگنا رہا ہے وہی پھر سے بارھا
وہ گیت جو زباں پہ باقی نہیں رہا
عظمٰی کئی دنوں سے ہم سوچ رہے ہیں
اپنا وہ قصہ جو کہ اب باقی نہیں رہا