گزر گئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں
اداس تم بھی ہو یارو اداس ہم بھی ہیں
فقط تم ہی کو نہیں رنجِ چاک دامانی
جو سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں
تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں
میرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
تمہارے آئینہ خانے بھی زنگ آلودہ
میرے صراحی و ساغر بھی زرد زرد سے ہیں
نہ تم کو اپنے خدو خال ہی نظر آئیں
نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے
نہ سرو میں وہ غرورِ کشیدہ قامتی ہے
نہ قُمریوں کی اداسی میں کوئی کمی آئی
نہ کھل سکے دونوں جانب محبتوں کے گلاب
نہ شاخِ امن لیے فاختہ کوئی آئی
تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمیں بھی زعم کہ مہا بھارتاں لڑیں تم نے
ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں
ستم تو یہ ہے کہ دونوں مرغزاروں سے
ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے
سو یہ حال ہوا اس درندگی کا اب
شکستہ دست ہو تم بھی شکستہ پاء میں بھی
سو دیکھتا ہوں تم بھی لہو لہان ہوئے
سو دیکھتے ہو سلامت کہاں رہا میں بھی
ہمارے شہروں کی مجبور بے نوا مخلوق
دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے
یہ لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں
بہت دنوں سے ہیں ویراں رفاقتوں کے دیار
بہت اداس ہیں دیر و حرم کی دنیائیں
چلو کہ پھر سے کریں پیار کا سفر آغاز
چلو کہ پھر سے ہم ایک دوسرے کے ہو جائیں
تمہارے دیس میں آ یا ہوں اب کے دوستو
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو چلو
میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے