کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں
اب اپنے دوستوں کو میں
جو محفل کی جان تھے
پہچان تھے محبت کی
شان تھے رفاقت کی
مان تھے اعتماد کا
دوستی کے پاس کا
مانا یہ کہ زندگی نے
دوریاں بڑھائی ہیں
اپنے اپنے کاموں میں
یوں مصروف ہو گئے ہم
کہ خواب تک نہ لکھے
اور دوستوں کی باتوں کے
جواب تک نہ لکھے
دنیا نے جہاں پھینکا
تپتی ریت صحرا کے
سراب تک نہ لکھے
پھر ایسے میں گِلا کیسا
کہ ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں
منزلوں کو پانے میں
اپنا آپ بچانے میں
اکثر ایسے ہوتا ہے
کہ دوست روٹھ جاتے ہیں